حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،عالمہ سیدہ بشری بتول نقوی نے پاکستان میں سیلاب سے متاثرین کے ساتھ اظہار ہمدردی اور ان کی امداد کی اپیل کے طور پر " آئیے اللہ کو قرض حسنہ دیجئے" کے عنوان سے متاثرین کی امداد کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ "وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا" (سورہ مزمل: ٢٠) اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہوجو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجتے ہو اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج وطن عزیز میں متاثرین سیلاب کی بے بس اور سوالیہ نظریں ہماری امداد کے تعاقب میں ہیں۔ آیا ہمارا فریضہ یہ ہے کہ کہ سوشل میڈیا پر چند بے بسی کی حالت میں چیختے پکارتے مظلوموں کی صدائیں دیتی ویڈیوز اور تصاویر اپلوڈ کر دیں؟ یا جو اللہ کے مقرب بندے امداد کرتے نظر آرہے ہیں ان کو سراہنا ہماری ذمہ داری کی کفایت کرتا ہے؟۔ یا پھر صرف حکومت پاکستان کی بے حسی کا پرچار کرنا ہی ہماری ذمہ داری کو ساکت کرنے کا سبب ہے ؟
انکا کہنا تھا کہ کیا ہم پاکستانی نہیں ہے ؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ آیا ہم پہ یہ وقت نہیں آسکتا؟ آیا تڑپتی ہوئی انسانیت کی آہیں ہمارے ضمیر کو بیدار نہیں کرتیں؟ آیا کربلا کے بچوں پر گریہ کرنے والی آنکھیں سیلاب زدہ بچوں کو بھوکا پیاسا تڑپتا نہیں دیکھ رہیں اور ان بچوں پر رحم کرنا ہمارا فرض نہیں بنتا؟ آیا ہم اپنے گھریلو اخراجات میں کمی کرتے ہوئے مظلوموں، بے گھروں کی امداد نہیں کرسکتے؟
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ بانیان مجلس نذر نیاز پر کم خرچہ کرتے ہوئے سیلاب زدگان کے بھوکے پیاسے لوگوں کو کھانا نہیں دے سکتے؟ اربعین کے زائرین اس سال زیارت کی بجائے بے سروسامان لوگوں کی مدد ان اخراجات سے نہیں کر سکتے؟۔
انہوں نے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے عزیز ہم وطنو! آج وطن عزیز کو ہماری بہت ضرورت ہے۔ اس وقت سب سے مہم فریضہ جو دنیا و آخرت کی سعادت ہے وہ اپنے وطن عزیز کو مشکل وقت میں سہارا دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اے میرے ہم وطنو! حضرت امام سجاد علیہ السلام کی سیرت پر عمل پیرا ہوکر مظلوموں کی امداد کو پہنچیں اور کربلا کے حقیقی درس کو سمجھ کر دنیا کو بتا دیں کہ ہم صرف دیندار نہیں بلکہ ہم دین شناس قوم ہیں۔
انہوں نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ دینے سے نہ گھبرائیں اور تھوڑا دینے سے نہ شرمائیں۔ ابابیل کی طرح کار خیر میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں۔
یاد رہے یہ وقت کسی کو سراہنے یا تنقید کا نشانہ بنانے یا خاموش تماشائی بننے کا نہیں ہے بلکہ اولین ذمہ داری اپنے آپ کو میدان عمل میں لانے کا وقت ہے۔وما علینا البلاغ